Explore the question in detail with explanation, related questions, and community discussions.
علامہ محمد اقبال برصغیر کے عظیم شاعر، فلسفی اور مفکر تھے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں بیداری، خودی اور عمل کے جذبے کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے اردو ادب کا سرمایہ ہیں، لیکن ان کی مشہور ترین نظموں میں "شکوہ" اور "جواب شکوہ" کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ دونوں نظمیں ان کے پہلے شعری مجموعے "بانگِ درا" میں شامل ہیں، جو 1924ء میں شائع ہوا۔
نظم "شکوہ" پہلی بار 1911ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں لاہور کے منٹو پارک میں پڑھی گئی تھی۔ اس نظم میں اقبال نے ایک فرضی مکالمے کے انداز میں مسلمانوں کی حالتِ زار پر اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا ہے کہ امت مسلمہ کو ان کی قربانیوں کے باوجود زوال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔ اس نظم نے مسلمانوں میں ایک نئی سوچ پیدا کی اور انہیں اپنی پسماندگی کے اسباب پر غور کرنے کی دعوت دی۔
اس کے جواب میں 1913ء میں اقبال نے "جواب شکوہ" لکھی، جو مسلمانوں کے شکوے کا جواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرضی کلام کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس میں اقبال نے زور دیا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا اصل سبب ان کی دین سے دوری، جہدِ مسلسل سے گریز اور حقیقی اسلامی اصولوں سے انحراف ہے۔ یہ دونوں نظمیں مل کر امت مسلمہ کو اصلاح، خودی، ایمان اور عمل کی دعوت دیتی ہیں۔
"بانگ درا" اقبال کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہے جس میں ان کی ابتدائی اور قومی شاعری شامل ہے۔ شکوہ اور جواب شکوہ نہ صرف اردو ادب کی کلاسک تخلیقات ہیں بلکہ اسلامی فکر اور مسلمانوں کی اجتماعی اصلاح کے لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ موضوع آج بھی نصاب اور علمی مباحث کا حصہ ہے۔
Discussion
Leave a Comment